30 جنوری 1933 - 20:34

ایک امریکی مبصر نے لکھا کہ ایران ممکنہ امریکی – اسرائیلی حملہ امریکی سلطنت کو سقوط اور تباہی کے جہنم میں دھکیل دے گا۔

اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق امریکی دانشور و مبصر جیمس پٹراس نے (James Petras) نے گلوبل ریسرچ ویب بیس میں "امپریلزم اور جمہوریت: وہائٹ ہاؤس یا میدان آزادی" کے عنوان کے تحت اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ایران پر امریکی اور اسرائیلی حملہ ایک ایسی آگ بھڑکا دے گا جو عالمی سطح پر پھیل جائے گی اور ایران جو جوابی کاروائی کرسکتا وہ ایسا ضرور کرے گا۔ اس کے بعد سعودی عرب اور خلیج فارس کے تیل کے کنویں آگ کی نذر ہونگے، جہاز رانی کے حیاتی روٹس بند ہوجائیں گے، تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرے گی اور ایشیائی، یورپی اور امریکی معیشتیں نیست و نابود ہوجائیں گی اور سب دیوالیہ ہوجائیں گے۔ایران کے سپاہی اپنے حلیف ملک "عراق" کی افواج کے ہمراہ بغداد کی چھاؤنیوں کا محاصرہ کریں گے، افغانستان اور پاکستان غرضیکہ پوری دنیائے اسلام ہتھیار اٹھائے گی اور امریکی افواج یا تو بھاگیں گی یا ہتھیار ڈالیں گی۔ بجٹ کے خسارے اور ادائیگیوں کے بیلنس میں شدید اضافہ ہوگا اور یہ سلسلہ قابو سے باہر ہوگا۔ بے روزگاری میں دو گنا اضافہ ہوجائے گا اور یہ پیہم ممکنہ  واقعات ایک جمہوری تحریک کے شعلوں کو ہوا دیں گے اور ایک نئی وجود میں آنے والی جمہوریت اور ایک بوسیدہ و فرسودہ سلطنت (Empire) کے مقابلے میں اٹھ کھڑی ہوگی اور اس کو خطرے سے دوچار کرکے سقوط اور زوال کے جہنم میں پھینک دے گی۔مضمون کا مکمل متن:مقدمهامپریلزم اور جمہوریت کے درمیان رابطہ 2500 برسوں سے ـ پانچویں صدی قبل مسیح سے لے کر (نیویارک میں) منہتن کے آزادی پارک تک، زیر بحث و مناظرہ رہا ہے امپریلزم اور کیپٹلزم کے نقادوں کا کہنا ہے کہ انہیں ان دو میں بہت گہرے تضادات نظر آئے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ بل کلنٹن کے زمانے میں امریکہ پولیس اسٹیٹ بن گیا اور اس نے پولیس آپریشنز کا سہارا لیا، بش نے اس کو آگے بڑھا کر قومی اور ملکی قوانین وضع کئے جبکہ اوباما نے ایک قدم آگے بڑھایا اور قانون کے ماوراء سمندر پار لوگوں پر قاتلانہ حملوں کا سہارا لیا ہے جبکہ امریکہ آج تک متعدد استعماری لڑائیاں لڑتا آیا ہے اور آج بھی اوباما ان جنگوں کے قائل ہيں۔لیکن اس سے قبل ماکس ویبر (Max Weber) سے لے کر ولادیمیر لینن تک کے نظریہ پردازوں کا خیال تھا کا امپریلزم نے ملک کو متحد کئے رکھا ہے، ملک کے اندر خاص طبقات کو مرکزیت حاصل نہیں کرنے دیا ہے، ایسے مزدوروں کا طبقہ پیدا کیا ہے جو مراعاتوں سے بہرہ مند ہیں اور یہ مزدور امپریلسٹ جماعتوں کی فعالانہ حمایت کرتے اور ان کو ووٹ دیتے ہيں۔ اگر ایک تاریخی جائزہ پیش کیا جائے اور ان حالات پر روشنی ڈالی جائے اور ان کا موازنہ کیا جائے جن کے تحت امپریلسٹ اور جمہوری ادارے ایک دوسرے سے قریب یا دور ہوجاتے ہیں، تو ان چیلنجوں اور آپشنز (Options) کی قدرے وضاحت ہوجائے جو جمہوری تحریکوں کے سامنے رکاوٹ بنے ہوئے ہیں جبکہ یہ تحریکیں پوری دنیا میں بالیدگی اور نشوونما کی حالت میں ہیں اور آتشفشانی کررہی ہیں۔انیسویں صدیانیسویں صدی میں یورپی اور امریکی سلطنتیں (Empire) پوری دنیا میں وسیع سے وسیع تر ہورہی تھیں اور جمہوری ادارے بھی اسی رفتار سے معرض وجود میں آرہے تھے۔ مزدور طبفے کو حق رائے دہی کی عطائیگی کو فروغ دیا گیا، مختلف جماعتیں معرض وجود میں آئیں جو ایک دوسرے کے ساتھ مسابقت کرنے لگيں۔ سماجی قوانین وضع ہوئے اور مزدور طبقات نے قانون ساز اسمبلیوں میں اپنے نمائندوں کی تعداد میں اضافہ کیا۔کیا جمہوریت اور امپریلزم کا بیک وقت فروغ ایک غیر منطقی یکجہتی کا نتیجہ تھا اور قوتوں کے درمیان پایاجانے والا تضاد اس ہمزمانی کا سبب تھا؟ ہم جانتے ہيں کہ امپریلزم سمندر پار فتوحات کا خواہاں تھا اور جمہوریت جمہوری پالیسیوں کو ترغیب دیتی تھی۔ حقیقت میں امپریلزم اور جمہوریت کی پالیسیوں میں وجوہ اشتراک کی کوئی کمی نہ تھی اور یہ وجوہ اشتراک صرف ممتازاور مراعات یافتہ طبقوں تک محدود نہ تھیں۔پوری انیسویں صدی، بالخصوص بیسویں صدی عیسوی کے دوران لیبر اور سوشل ڈیموکریٹک جماعتوں اور بائیں بازو کے کئی اہم افراد اور انقلابی سوشلسٹوں نے کسی خاص موقع پر یا دوسرے مواقع پر، مزدوروں کے مطالبات کو امپریلزم کے فروغ و توسیع کی حمایت کے ساتھ نتھی کیا۔ حتی کارل مارکس نے بنفس نفیس اپنی صحافتی مضامین میں جو "نیویارک ہیرلڈ ٹربیون" میں شائع کئے جاتے تھے، ہندوستان میں برطانوی فتوحات کو "ماڈرن کرنے والی قوت"، "پیس کر رکھنے والی قوت"، اور [ہندوستان کی ترقی میں] رکاوٹ بننے والی جاگیرداری قوتوں کو دیوار سے لگانے والی قوت" جیسے الفاظ سے یاد کرکے برطانوی امپریلزم کی تنقیدی حمایت کی۔ اس نے اسی زمانے میں یورپ میں 1848 کے انقلابات کی بھی حمایت کی۔امپریلزم کی قوت محرکہ، تشکیل دینے والے برسر اقتدار طبقات دو گروہوں میں تقسیم ہوئے: بعض لوگ  بعض جمہوری اصلاحات کے ذریعے عوام کو "شہری" میں تبدیل کرنے کو ایسا وسیلہ سمجھتے تھے جس کے نتیجے میں شہریوں کو فوج میں جبری خدمت کے لئے بلا کر سامراجی (امپریلسٹک) جنگوں میں بروئے کار لایا جاسکتا تھا۔ بعض دوسرے خوفزدہ تھے کہ جمہوری اصلاحات معاشرتی مطالبات میں اضافے اور وسعت کا سسب بنیں گی اور یہ صورت حال سرمایہ اکٹھا کرنے کے عمل اور مراعات یافتہ  طبقے (The privileged class) کے مفادات کو نقصان پہنچائے گی۔  ان دو طبقوں کی بات صحیح تھی کیونکہ سیاست میں عوام کی وسیع شرکت ایک مہلک اور خطرناک جدید قوم پرستی نے جنم لیا جس نے سلطنت سازی اور امپائر سازی کے لئے ضروری ایندھن فراہم کیا لیکن جمہوری حقوق پر عوام کی دسترس طبقاتی تنظیموں کی تشکیل کے لئے ایک وسیع تحریک کے آغاز پر منتج ہوئی جس نے مراعات یافتہ طبقے کی حکومت کو چیلنج کیا اور اس کو خطرات سے دوچار کیا۔ حکمران طبقے اپنے اندر جمہوری اداروں کو مراعات یافتہ کے مختلف دھڑوں کے درمیان رونما ہونے والے مسائل کے حل کا وسیلہ سمجھتے تھے جو آپس میں مسابقت کرتے تھے لیکن جب ان جمہوری اداروں نے عوامی صورت اختیار کرلی اور ان کی خصلت بھی عوامی ہوگئی تو یہ بھی سیاسی خطرہ سمجھے گئے۔امپریلسٹ جماعتوں اور طبقات کی بنیاد پر تشکیل پانے والی جماعتوں نے شہروں میں مزدوروں اور دیہی علاقوں کے غرباء کے ووٹ کمانے کے لئے مقابلے کا آغاز کیا جبکہ مزدوروں اور دیہاتیوں نے تازہ تازہ حق رائے دہی حاصل کیا تھا۔ بہت سے مسائل میں افراد کے وجود کے اندر امپریلزم سے وفاداری اور طبقات سے وابستگی کی دو خصوصیات "بقائے باہمی" کے عنوان سے سمائی ہوئی تھیں۔ اس سوال کا جواب سوال کہ "امپریلسٹک آگہی یا پھر طبقاتی آگہی" میں سے کونسی عمل کے میدان میں اترے گی یا دوسری پر سبقت حاصل کرے گی کسی حد تک سیاسی منصوبوں کی کامیابی یا شکست پر منحصر تھا۔ بالفاظ دیگر جب دولت سے مالامال نوآبادیوں بالخصوص مہاجر نشین نوآبادیوں میں سہل و آسان فتوحات کے ذریعے سلطنتوں کی توسیع کا منصوبہ وضع کیا جاتا، جمہوریت پسند مزدور امپریلزم کی حمایت کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سلطنت (امپائر) تجارت کو فروغ دیتی تھی یعنی برآمدات منافع بخش اور درآمدات سستی اور آسان ہوجاتی تھیں اور سلطنت ہی مقامی منڈی اور صنعتکاروں کو تحفظ دیتی تھی۔ یہ بات اپنی جگہ مزدور طبقے کے ایک بڑے طبقے روزگار کی فراوانی اجرتوں میں اضافے کا باعث بنتی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لیبر جماعتیں، سوشل ڈیموکریٹک جماعتیں مزدور یونینوں کے ہمراہ کبھی بھی امپریلزم کی مخالفت کے لئے نہیں اٹھیں بلکہ اس کی حمایت کرتے تھے۔ دوسری جانب سے جب امپریلسٹک لڑائیاں خونریز جنگوں میں تبدیل ہونے اور ان کے اخراجات میں اضافف کی صورت میں مزدور طبقہ قوم پرستی (اور Chauvinism) سے سرشار جذبات سے دور ہوجاتا تھا اور ان جنگوں کی مخالفت کیا کرتا تھا۔ جنگ کے خاتمے کے لئے جمہوری مطالبہ ہڑتالوں پر منتج ہوا جو نا متناسب ‍قربانیوں پر ترجیح رکھتی تھیں اور اس ترتیب سے جمہوری اور امپریلزم مخالف جذبات آپس میں متحد ہونے کی جانب مائل ہوجاتے تھے۔امپریلزم اور جمہوریت کے درمیان تضادات اس وقت ابھر کر سامنے آیا کرتے تھے جب امپریلزم کے محاذ میں شکست کے آثار نمودار ہوتے یا حتی امپریلسٹ ملک دشمن کے ہاتھوں تسخیر ہوجاتا۔ 71ـ 1870 میں فرانس پر جرمنی کے قبضے اور پہلی عالمی جنگ میں جرمنی کی شکست جمہوری اور سوشلسٹ بغاوتوں پر منتج ہوئی۔ (1971 میں پیرس کمیون اور 1918 میں جرمن انقلاب کے بعد) لوگوں نے میلٹارزم (()) اور طبقہ حاکمہ اور سرمایہ دارانہ و امپریلسٹک نظام کے پورے پیکر پر یلغار کی۔ امپریلزم اور جمہوریت کا جائزہ اور "تاریخ، معاشرے کے زیریں طبقوں کے زاویہ نگاہ سے"مؤرخین، بالخصوص ڈیلی فیشن مکتب کے پیروکاروں نے "تاریخ، معاشرے کے زیریں طبقوں کے زاویہ نگاہ سے" کے عنوان سے جمہوری اقدار اور مزدور طبقے کی جدوجہد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور ساتھ ساتھ مزدور طبقے کی جانب سے امپریلسٹک فتوحات کی طویل المدت حمایت کو ناچیز گردانا۔ اس صورت میں مزدور طبقے کی ذاتی یا جِبِلِّی یکجہتی اس لئے شدت کے ساتھ کمزور ہوگئی کہ انھوں نے امپریلسٹک فتوحات میں وسیع کردار ادا کیا تھا۔ انھوں نے سپاہیوں، مزدوروں، ملاحوں اور ناظرین و شاہدین یا پھر براہ راست مداخلت کی شکل میں سمندر پار فتوحات میں حصہ لیا تھا۔ فرانسیسی اور برطانوی مزدوروں اور بعدازاں امریکہ میں مزدور تحریکوں میں بہت سے مزدور تھے جو اپنے ملک کی بین الاقوامی سلطنت کے لئے کام کررہے تھے ان کی مدد کررہے تھے اور ان کے وفادار تھے۔ یہاں جو نقطہ نظر منظور نظر ہے وہ یہ ہے یہ مزدور طبقہ جمہوری آگہی کو صرف اس شرط پر امپریلسٹک آگہی پر ترجیح دینے کے لئے تیار ہيں جب امپریلسٹک پالیسیوں سے حاصل ہونے والے وادی فوائد اور ثمرات جمہوری جدوجہد سے حاصل ہونے والے فوائد سے کم ہوں۔ مزدور اور امپریلزمسلطنت (امپائر) قائم کرنے کے لئے مزدوروں سے تقاضا کیا جاتا ہے کہ وہ کم اجرت پر زیادہ پیداوار دے دیں تاکہ نوآبادیوں کی طرف برآمدات میں اضافہ ہو اور ان علاقوں میں منافع بخش سرمایہ کاری کی جاسکے۔ مزدوروں سے یہ تقاضا خاص طور پر امپائر کی توسیع کے پہلے مرحلے میں سرمایہ داروں اور مزدوروں کے درمیان جھگڑے کا باعث بنا۔ جس وقت بین الاقوامی سلطنتیں نوآبادیاتی ممالک پر اپنا کنٹرول مضبوط کررہی تھیں منڈیوں، مزدوروں اور وسائل کے استحصال میں بھی شدت لارہی تھیں۔ نوآبادیوں کے لئے بے تحاشا برآمدات نے علاقائی صنعتکار حریفوں (Competitors) کو نیست و نابود کردیا۔ اس طرح منافع کی مقدار میں اضافہ ہوا، اجرتوں میں اضافہ ہوا اور مزدوروں نے سلطنت کے خلاف اپنی ابتدائی مخالفت کا سلسلہ ترک کردیا اور برآمدات تیار کرنے والی صنعتوں کے منافع میں حصہ مانگنے لگے۔ مزدوروں اور لیبر یونینوں کے راہنماؤں نے سلطنت کی ترجیحی پالیسیوں کی تائید کردی۔ یہ پالیسیاں مسابقتوں میں مقاقی صنعتوں نیز نوآبادیوں کی منڈیوں پر موناپولی اور کنٹرول کا تحفظ کررہی تھیں۔ ان کی حمایت